Tuesday, June 18, 2019

ایران امریکہ کشیدگی: مشرق وسطیٰ میں مزید ایک ہزار امریکی فوجی تعینات

خلیج عمان میں جمعرات کو دو تیل بردار ٹینکروں پر حملے کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں مزید ایک ہزار اضافی فوجی بھیج رہا ہے۔۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ان ٹینکروں پر 'بلااشتعال حملوں' کا الزام ایران پر عائد کیا تھا جبکہ تہران کی جانب سے یہ الزام مسترد کر دیا گیا تھا۔
امریکہ کے قائم مقام وزیرِ دفاع پیٹرک شناہن کے مطابق اِن فوجی دستوں کی تعیناتی ایرانی فوج کے 'جارحانہ رویے' کے ردِعمل میں کی گئی ہے۔
امریکی بحریہ نے کچھ تصاویر بھی جاری کی ہیں، جن سے اُن کے مطابق ایران کے ان حملوں میں ملوث ہونے کا تعلق ثابت ہوتا ہے۔
پیر کو ایران نے اعلان کیا تھا کہ اگر یورپی ممالک نے اسے امریکی اقتصادی پابندیوں سے بچانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہ کیا تو وہ 27 جون کو افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے سے متعلق معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کے مزید دستوں کی تعیناتی کا اعلان سیکرٹری دفاع شیناہن نے پیر کو کیا۔
اپنے بیان میں انھوں نے کہا 'امریکہ ایران کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا' البتہ فوجی دستوں کی تعیناتی اس لیے کی گئی ہے تاکہ وہ 'اس خطے میں ہمارے فوجی اہلکاروں اور (امریکہ کے) قومی مفادات کی حفاظت کر سکیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ایران کے حالیہ حملوں نے ایرانی افواج اور اس کے گماشتوں کے جارحانہ رویوں کے بارے میں ہماری قابلِ اعتماد انٹیلیجنس معلومات کو درست ثابت کیا ہے اور یہ رویے خطے میں امریکی فوج اور امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ امریکی فوج اس صورتحال کی نگرانی کرتی رہے گی، اور فوجیوں کی تعداد کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دیں کہ یہ اضافی فوجی دستے کہاں تعینات کیے جائیں گے۔
مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا یہ اعلان صدر ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ماہ علاقے میں 1500 فوجیوں کی تعیناتی کے حکم کے علاوہ ہے۔
امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے اتوار کو کہا تھا کہ امریکہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا، لیکن وہ 'تمام ممکنہ امکانات پرغور کر رہے ہیں'۔
وہ منگل کو مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار امریکی فوجی کمانڈر سے فلوریڈا میں سینٹرل کمانڈ میں ملاقات بھی کر رہے ہیں۔
مزید فوجیوں کی تعیناتی کے اعلان کے بعد امریکی محکمۂ دفاع نے کچھ نئی تصاویر بھی جاری کیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ جاپانی آئل ٹینکر پر نہ پھٹنے والی بارودی سرنگ کی باقیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصاویر میں بظاہر دیکھا جا سکتا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کے اہلکار بارودی سرنگ ہٹا رہے ہیں۔ اس سے قبل پینٹاگون نے اِسی بارے میں ایک دھندلی ویڈیو پہلے ہی جاری کی ہوئی ہے۔
تصاویر میں جاپان کے تیل برادر بحری جہاز کوکوکا کریجیئس پر واٹر لائن سے اوپر ایک سوراخ بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو بظاہر نقصان کی نشاندہی کر رہا ہے۔
ایک اور تصویر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کے اہلکار کو دیکھا جاسکتا ہے جب وہ نہ پھٹنے والی بارودی سرنگ کی باقیات کو ہٹا رہے ہیں۔
گذشتہ جمعرات کو ہونے والے اس حملے میں ناروے کے تیل بردار بحری جہاز دی فرنٹ الٹئر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
امریکہ نے ان تازہ حملوں کے بعد آبنائے ہرمز میں مئی کے دوران ہونے والے ایسے چار حملوں کا الزام بھی ایران پر عائد کیا ہے۔
دوسری جانب ایران نے ان امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔

Tuesday, June 11, 2019

站在气候十字路口的巴西

巴西申办2019年联合国气候会谈(第25次缔约方会议)的努力在本周有了重大进展,该国极右翼总统候选人贾伊尔·博尔索纳罗似乎将取得最后的胜利。博尔索纳罗曾扬言要退出巴黎协定,并撤销环境部。

巴西于去年11月向联合国提交主办申请,今年10月5日获得拉美和加勒比国家共同体(以下简称“拉共体”)的支持,这是该进程的一个重要步骤。拉共体是该地区在联合国的代表,但博尔索纳罗已承诺当选后将推动巴西退出联合国

然而,巴西的主办权并没有确定。该国面临着近几十年来最为重要的总统大选,政治处于动荡之中。在10月7日举行的首轮投票中,作为退役军官的博尔索纳罗几乎大获全胜。他将在10月27日举行的第二轮投票中,与劳工党候选人费尔南多·阿达争夺总统之位。

博尔索纳罗关于环境保护和原住民团体的言论让环保人士目瞪口呆。他认为,为了签署《巴黎协定》,巴西承诺保留数百万公顷的保护森林,这个代价太高了。

“如果这个条件不变,我将退出《巴黎协定》,”9月在里约热内卢与商界人士会面时他告诉记者。“如果我们的作用就是交出1.36亿公顷的亚马逊雨林,那我不干了。”

他的对手阿达曾在前总统路易斯·伊纳西奥·卢拉·达席尔瓦的政府中担任教育部长。卢拉在任期间,巴西的森林砍伐率达到了近几十年的最低水平。

但阿达很难赢得选民的支持。他所在的劳工党因严重的腐败指控,已经形象全无。卢拉早已锒铛入狱,罪名是贪污和洗钱。

第25次缔约方会议是执行《巴黎协定》的一个重要阶段。195个国家在协定中承诺将减少温室气体排放,从而将全球气温升高幅度控制在工业化前水平的2℃以内。自2015年成立以来,政府间气候变化专门委员会(简称IPCC,由联合国委任的科学家组成)已经发出警告,称全球变暖如超过1.5℃将带来巨大代价。

明年的会议将于11月举行。今年的会议(第24次缔约方会议)将在12月3至14日在波兰城市卡托维兹举办。

巴西希望通过主办气候会议,向国际社会展示其强有力的环境政策史。

“主持(会议的)国家在全球进程中充当协调者的角色,”气候观测站(Climate Observatory)执行秘书长卡洛斯·瑞特尔解释说。“与此同时,会议为主办国提供了一个讨论其如何推进国内政策的机会。”

巴西目前政局动荡,这个机会来的恰逢时机。2005至2012年,巴西的排放减少了52%,但这一势头未能保持。2012年,时任总统迪尔玛·罗塞芙(劳工党)放宽了限制森林砍伐的规定。此后,森林砍伐速度放缓幅度变小,环保人士警告称,该国可能无法实现其向联合国提交的、作为《巴黎协定》一部分的国家减排目标。

巴西的政治动荡持续已有4年多,并且经历了世界上最大的腐败调查案——“洗车行动”。罗塞夫因此于2016年被弹劾,她的继任者、现任总统米歇尔·特梅尔则面临两项刑事指控。被削弱的政府已无力遏制本应受到保护的区域内猖獗的砍伐活动。

危机似乎远没有解除。即便有了拉共体的支持,巴西作为第25次缔约方会议主办国的地位仍非万无一失,这一推荐还需拉共体高层官员的支持

“如果秘书长认为巴西没有能力主持会议,还有其他候选国家,无论这些国家有多么出人意料,”瑞特尔解释。

但瑞特尔认为,拉共体表现出来的整个区域对巴西的支持是外交上的胜利。由于委内瑞拉的严重危机和巴西的政治狂热导致拉美地区政治出现极端分化的情况,该地区各国之间的关系一直很紧张。

外界希望,巴西主办此次会议能够让气候议程更加接近政治讨论的中心

数十年来,巴西一直是环境政策的区域领袖。1992年,负责监督气候谈判的《联合国气候变化框架公约》正是在里约热内卢诞生的。

领导力的任何一点丧失都将对该地区和世界造成不利影响。巴西是全球第7大温室气体排放国。倘若该国开始退出世界舞台,就会和美国一样,成为各国实现《巴黎协定》总体目标的一大障碍。

“我们还有很多东西要展示,”瑞特尔说。“但与此同时,我们必须直面我们的矛盾。”